ساڑھے چار ارب سال قبل ہمارے نظام شمسی میں زمین اپنی ابتدائی شکل میں نمودار ہوئی۔ زمین اپنی پیدائش کے وقت بالکل آگ اگلتے سورج کی مانند تھی۔جہاں یہ آج کی دنیا کے چشمے، دریا ، پہاڑ اور سبزے بالکل موجود نہ تھے۔ زمین آہستہ آہستہ سے ٹھنڈی ہوئی اور اس پر علم ارضیات کے موضوعات صفحوں کی مانند بکھرنے لگے۔ پہلے پہل زمین پر آتش فشاں پہاڑ آئے روز پھٹتے تھے۔ زمین پر زندگی کے آثار اس وقت نمودارہوئے جب پہلی آئس ایج کے بعد زمین ٹھنڈی ہو کر پگھلنے لگی اور اس نے سمندروں کو جنم دیا۔ جہاں سے ابتدائی زندگی کی سادہ ترین شکل نے لمبے عرصے میں ارتقائی اصولوں کے تحت انواع و اقسام کی مخلوقات کو جنم دیا جن میں آج سے دو لاکھ سال قبل افریقہ کے جنگلات میں نمود پانے والا قدیم انسان بھی شامل ہیں۔ انسان شجر حیات یعنی ٹری آف لائف کے ان پیچیدہ ترین جانوروں میں سے ایک ہے جس نے مختلف ادوار میں فطرت کے ہر خطرے کا سامنا کیا اور خود کو ہر حالت میں زندہ رہنے کے قابل بنایا۔ انسان کی جبلت میں وہ مضبوط قوائے عقلی موجود تھے جس نے اس کو تپتے صحراؤں ، چٹیل پہاڑوں، گھنے جنگلوں اور میلوں پر پھیلے میدانوں میں حکمرانی دلوائی ۔ انسان جس علاقے ، جس چیلنج سے نبرد آزما ہوا اس کو فتح کرتا گیا۔
سخت ترین موسمی حالات سے لے کر درندہ صفت مخلوقات کو انسان نے مات دی۔ فطرت کی تسخیر کا سہرا تمام مخلوقات میں انسان کو اسی لیے جاتا ہے ۔ تہذیب کی ترقی کے بعد انسان اپنے تمام فطرت کی جانب سے لاحق خطرات کا توڑ نکال چکا تھا یا کم از کم اس کی تلاش میں تھا۔ انسان انیسویں صدی تک اس نہج پر پہنچ چکا تھا کہ وہ اپنے مخالف حالات کا سامنا اپنے طریقے سے کر سکے لیکن جیسے کہ پرانی روایت ہے، کہ جب کوئی سپاہی تمام دشمنوں کو مار چکا ہو تو غیر متوقع نہیں کہ وہ اگلا دشمن خود اپنے آپ کو بنا لے اور اب وہ وقت ہے کہ انسانی اعمال زمین اور ماحول کا نصیب طے کر رہے ہیں اور یہی وجہ کے موجودہ دور کو اینتھروپوسین کہا جاتا ہے ۔ انیسویں صدی کے دوسرے نصف میں انسانی تہذیب میں زبردست ترقی ہوئی جب انگلستان سے صنعتی دور کا آغاز ہوا، اس صنعتی انقلاب نے انسان کی قسمت بدل کر رکھ دی۔ یورپی طاقتوں کے درمیان صنعتی مقابلہ شروع ہو گیا جس سے ہر قسم کی اشیاء کی بڑے پیمانے پر پیداوار ہونے لگی۔ اور یہ وہ وقت جہاں سے ہم نے زمین کو آلودہ کرنا شروع کر دیا۔
فیکٹریوں ، ذرائع آمدو رفت کے علاوہ مختلف طریقوں سے ماحول میں کاربن کا زبر دست اخراج ہونے لگا۔ کاربن کے اس بے ہوشربا اضافے سے زمین کو نا قابل تلافی نقصان پہنچا ہے اور اب حالات یہ ہیں کہ خود نوع انسانی کا وجود مکمل خطرے میں ہے۔ یہ ایک، دو، ہزار، لاکھ یا کروڑ کا مسئلہ نہیں بلکہ تقریباً آٹھ ارب کی نوع انسان کی آبادی صفحہ ہستی سے مٹ جانے کے در پے ہے اور انسان کو یہ بات سمجھ نہیں آ رہی۔
آئیے انسانی تباہی کا یہ پہلو چند ایک حقائق سے سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ گلوبل کاربن ڈیش بورڈ کے مطابق صنعتی انقلاب کے بعد سے اب تک ماحول میں چالیس فیصد کاربن کا اضافہ ہو چکا ہے ۔انٹارکٹکا پچھلی صدی میں تقریباً آدھا پگھل کر سمندروں کی نظر ہو گیا ہے۔ ان سب غیر معمولی تبدیلیوں سے ہماری زمین شدید گرم ہوتی جارہی ہے جس سے زمین کے اوسط درجہ حرارت میں ایک ڈگری سے بھی زیادہ اضافہ ہو چکا ہے ۔ جس سے موسمیاتی تبدیلیاں شدت اختیار کر رہی ہیں ۔ بارشوں ، برفباری اور موسموں کے وقت اور دورانیے تبدیل ہو گئے ہیں ۔ اور ان سب کا مطلب یہ ہے کہ آئندہ چند ایک عشروں میں زمین ناقابل رہائش ہو جائے گی جس کا ذمہ دار کوئی اور نہیں خود انسان ہو گا۔
اس سنگین انسانی المیے کا حل کسی ایک انسان کی ہاتھ میں نہیں ۔نہ ہی یہ کسی ایک قوم کا مسئلہ ہے ۔ اب اجتماعی انسانی کاوشیں ہی انسان کو اس تباہی سے بچا سکتی ہیں۔ قوم، نظریہ، مذہب یا فرقہ یہ سب انسان کے ہونے سے ہیں۔انسان کو اس وقت چاہیے کہ ان سب سے ماوراء ہو کر ایک انسان کی صورت میں اپنی بقاء کی جنگ لڑیں۔ماحول کو بچانا اس وقت بالکل خود ہی کو بچانا ہے۔
Kanwar Muzammil is a student of Mass Communication at the University of Punjab, Lahore. He was trained on citizen journalism and climate change awareness under SSDO’s two-year project: “Youth for Civic Action and Reporting on Climate Change through Citizen Journalism in Pakistan”, funded by the Commonwealth Foundation.