موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جنم لینی والی قدرتی آفات میں دن بدن اضافہ ہورہا ہے۔ آئے روز دنیا کے مختلف خطوں سے موسمیاتی تبدیلیوں کی صورت میں کبھی سیلاب، کبھی سونامی، کبھی جنگلات میں آگ اور سخت ترین موسموں کے رجحان کی خبریں اخباروں میں شہ سرخیاں بنتی ہیں۔ جن سے اموات اور ہیومن سفرنگ میں اضافہ ہوتا چلا جا رہا ہے ۔ جون اور جولا ئی کے مہینے بالخصوص اس لحاظ سے بڑا اہم رہے۔جب ملک کے مختلف علاقوں میں بے موسمی بارشوں کا سلسلہ جاری رہا اور بحیرہ عرب سے اٹھنی والی ہواؤں کی خبریں پوری دنیا میں مرکز نگاہ رہیں۔
6 جون کو بحیره عرب کے جنوب مشرق میں ہواؤں کے سسٹم کی وجہ سے دباؤ پیدا ہوا تھا۔ آغاز میں ہوا کی رفتار 45 سے 55 کلو میٹر فی گھنٹہ تھی جو بڑھتی ہوئی ایک ہی دن میں 65 کلو میٹر فی گھنٹہ ہو گئی۔ سمندر میں پیدا ہونے والا دباؤ ہر گزرتے وقت کے ساتھ شدت اختیار کرتا جا رہا تھا۔ 8 جون تک یہ دباؤ سمندری طوفان میں تبدیل ہوتا ہے جس کی رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ تک پہنچ گئی تھی۔ غیر معمولی طور پر زیادہ درجہ حرارت لیے بحیرہ عرب اور کمزور ہوتا مون سون سسٹم اس طوفان کے لیے سازگار ثابت ہوا۔ جس سے پاکستان ، بھارت اور سری لنکا کی ساحلی پٹیاں شدید متاثر ہوئیں۔
گزشتہ 58 برسوں میں بحیرہ عرب میں اٹھنے والا یہ تیسرا شدید اور خطرناک سمندری طوفان تھا۔ اس کا نام “بیپر جوائے” بنگالی زبان سے لیا گیا ہے جس کے معنی مصیبت اور آفت کے ہیں۔طوفان نے شہریوں پر خوف و ہراس طاری کر دیا تھا، جب کہ موجودہ دور میں ایسے بہت سے طریقے موجود ہیں جن کی بدولت تباہی کو کم سے کم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے علاوہ 1970 کے سمندری طوفان نے جو بنگلادیش سے ٹکرایا تھا تین لاکھ جانیں لے لی تھیں۔ مگر آج پیش گوئی اور قبل از وقت احتیاطی تدابیر اور عمل سے نقصان کو نچلے درجے تک لے جایا جا سکتا ہے۔ گلوبل وارمنگ اور اس کے نتیجے میں آنے والی قدرتی آفات سائنسی طور پر ثابت شدہ ہیں۔ موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ہر سال سمندری درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ جو بلاشبہ شدید اور انتہائی موسمی حالات کی وجہ بھی بن رہا ہے۔ بڑھتا ہوا سطح سمندر کا درجہ حرارت پانی کے حرارتی پھیلاؤ یعنی کہ تھرمل ایکسپینشن کی وجہ بن رہا ہے جس کی بدولت سطح سمندر میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کے علاوہ گلیشیئرز کا تیزی سے پگھلنا اور دیگر انسانی سرگرمیاں جو ماحول کے لیے سازگار نہیں وہ تباہ کن ماحولیاتی اثرات کا موجب بنی ہیں۔
ترقیاتی اور حفاظتی عمل میں تیزی، انفرادی و اجتمائی کاوشیں اور پائیدار ترقیاتی منصوبے زمین پر بسنے والے لوگوں کو موسمیاتی تبدیلی کے خطرناک اثرات سے بچا سکتے ہیں۔ مقتدر لوگوں سمیت ہر ایک کی ذمہ داری ہے کہ anthropogenic gases انتھروپوجینک گیسس کے ذرائع میں کمی کرے اور ساتھ ساتھ کاربن سنک جیسے کہ جنگلات اور دیگر آبی ذخائر کو بڑھانے میں اپنا کردار ادا کرے۔ ممکن ہے کہ آئندہ سالوں میں موسمی تبدیلیاں اس قدر سخت اور ناگوار نہ رہیں۔اور یہ صرف اسی وقت ممکن ہو گا جب ہم اسے نہ صرف اپنا بلکہ اپنی نسلوں اور کل انسانیت کا مسئلہ تسلیم کریں گے۔
تحریر : فضہ شکیل
Fizza Shakeel is a student of the University of Punjab, Lahore. She was trained on citizen journalism and climate change awareness under SSDO’s two-year project: “Youth for Civic Action and Reporting on Climate Change through Citizen Journalism in Pakistan”, funded by the Commonwealth Foundation.